اصلاحی تحریکیں اور ان کیلئے متبادل طریقہ کار
]عربی تحریر: مولانا سید واضح رشید ندوی،ناظم تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنؤ
Xترجمہ و تلخیص:خورشید عالم ندوی،ایم اے عربی؍اردو
]عربی تحریر: مولانا سید واضح رشید ندوی،ناظم تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنؤ
Xترجمہ و تلخیص:خورشید عالم ندوی،ایم اے عربی؍اردو
حقوق طلب کرنے،ظلم و استبداد سے چھٹکارہ پانے یاعوام مخالف حالات کے رخ کو پھیرنے کے لئے آج کل جو کوششیں کی جارہی ہیں،ان میں زیادہ تر جماعتیں اور تحریکیں وجود میں آتی ہیںیا رائے عامہ کے ذریعہ انفرادی طاقتوں کو منظم شکل دے کر مطالبات رکھے جاتے ہیں اور احتجاج کا طریقہ اپنا کر شکایتیں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔مطالبات منظور کرانے کے لئے بھوک ہڑتال،کام ہڑتال،جلسے جلوس اور دھرنوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہ وہ طریق کار ہیں جو انسان کو طاقت و قوت اور بسا اوقات تشدد کے راستے اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔چونکہ مظلومیت اور محرومیت کا احساس و شعور جب حد کو تجاوز کرجاتا ہے،تو نفرت کا روپ دھار لیتا ہے۔مظلوم اور بے کس افراد کے یہ رویے کبھی کبھی حریف جماعت یا طبقہ کو بغض و عناد کی راہ پر لے جاتا ہے اور یہ جماعت طاقت کے بل پر اسے کچل ڈالنے کے در پہ آجاتی ہے۔اس میں غریب اور کمزور طبقہ اور بھی دب کر رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس کبھی حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور بھی ہو جاتی ہے۔مطالبہ کرنے والی جماعت اگر کمزور ہے اور اپنی بات منوانے میں ناکام رہی تو پھر وہ کسی جماعت یا فرقہ کے نظر میں آجاتی ہے اور ہمیشہ اس کے استحصال کا شکار رہتی ہے۔
مذکورہ بالا سارے حربے اوروسائل ایک ایسے جمہوری ملک میں اپنایا جاتا ہے جہاں باشندگان وطن کو اپنے حق کے مطالبے ،احتجاج اور اظہار رائے کادستوری حق حاصل ہے۔مسائل اور معاملات کے حل کے دوسرے بھی طریقے ہیں۔باہم بات چیت ،گفت و شنیداور انسان کے ضمیر کو اپیل کرکے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔انسان خواہ جتنا بھی مغرور اور متکبر ہو،مگر اس کا دل ایک نرم گوشہ اور حساس شعور سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔حتی کہ وہ سرکش اور ظالم شخص جو بے قصوروں کے خون بہاتا ہے،بعض دفعہ اس کا دل بھی نرم پڑ جاتا ہے۔چنانچہ جب اس کے حساس شعور کوچھیڑا جاتا ہے،تو اس کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے۔بڑی سے بڑی جابر اور ظالم طاقت بھی نرم پڑ گئی ہے۔اس طریقہ کو اپنانے میں کسی مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑتا اور نہ ہی فریقین کے درمیان رسہ کشی اور کشیدگی کی صورت کا امکان رہتا ہے۔خواہ ایک فریق طاقت و قوت اور وسائل و ذرائع سے لیس ہو اور دوسرا فریق کمزور کیوں نہ ہو۔
سیاسی قائدین ان طریقوں کواختیار نہیں کرتے۔حالانکہ وہ سیاسی استحکام کی بات کرتے ہیں۔عوامی مسائل و مشکلات کو اپنی سیاسی پوزیشن کے استحکام وترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔لیکن ان سب کے برخلاف باغیانیہ اور احتجاجی ذہنیت ان سب طریقہ کار پر غالب رہتی ہے۔ممکن ہے یہ مغربی طرز عمل اور وہاں کی بعض تخریب کار تحریکوں کے زیر اثر ایسا ہوتا ہو۔لیکن ایک بات مسلم ہے کہ اگر اس کے پیچھے کو ئی تخریب کار تحریکی عوامل کارفرما ہیں ،تو ان کا اصل مقاصد کے حصول سے نہ تو کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے اصول وضوابط کا پاس و لحاظ ہوتا ہے۔بہر کیف ہنگامہ آرائی اور طاقت کے زور پر حقوق کے مطالبات کا رجحان عام ہو گیا ہے۔عموماً ایسے مشکلات کھڑے کر دیے جاتے ہیں جن کے سامنے حکومت کسی سبب سے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔لیکن اس کا نتیجہ مختلف ہو تا ہے۔کبھی تو حکومت حالات پر قابو پانے اور جانی و مالی نقصانات سے بچنے کے لئے ایسا قدم اٹھاتی ہے۔اس کے برعکس کبھی حکومت کا موقف سخت ہوجاتا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی طاقت کو کچلنے اور دبانے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ایسی صورت میں احتجاج پسندوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ایسے میں وہ بے قصور افراد بھی اپنی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو ایسی سرگرمیوں میں شریک تو درکنار،اسے دل سے بھی برا سمجھتے ہیں۔
ان طور طریقوں سے متاثر ہو کر کئی اسلامی ممالک کی بعض تحریکوں نے بھی اس نوعیت کے رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔تاکہ وہ بھی معاصر سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے شانہ بشانہ چل سکیں۔مثلاً ردعمل کے طور پر کوئی ایسا تشددپسندانہ اقدام کرگزرنا جو اس سے قبل کی جماعتوں کی جانب سے ہوتے آیا ہے۔
اس طرح کے واقعات کے یقیناً کچھ اسباب ہوتے ہیں،بعض مرتبہ سیاسی ،معاشی اور سماجی خستہ حالی ان کو ا ن کاموں پر مجبور کرتے ہیں تو کبھی سماجی ناانصافی،قانونی دباء ،فرقہ واریت اور محرومیت کا احساس و شعور ان کا سبب بنتے ہیں۔بہر حال نتیجہ انتہائی خسارہ کا ہوتا ہے۔اور گھاٹے کا یہ سلسلہ تقریباً گذشتہ پچاس سالوں سے جاری ہے۔پھربھی یہ جماعتیں اور تحریکات مقامی حکومتوں پر دباؤ بنانے میں ناکام ہیں۔حالانکہ سیاسی تنظیمیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
تشدد پسندی اور احتجاجی ذہنیت کا خطرہ ان حالات میں اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے،جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔چاروں اطراف اکثریت طبقہ کا بولا بالا اور ان کا رعب و دبدبہ ہو۔خصوصاً جب دو فرقہ کے درمیان رسہ کشی و عدم اطمینان کی کیفیت ہو۔
جب مسلمانوں نے اپنے حقوق کو لے کر جلوس نکالے،احتجاج کیے،تو اکثریت طبقہ نے اس کی مخالفت میں ان پر ہلہ بول دیا،اس سے پہلے کہ حکومت اس پر کوئی قدم اٹھاتی ۔
ملک میں بابری مسجد سانحہ کے موقع پر مسلمانوں کو اس کا تجربہ ہوا۔جب مسلمانوں نے اس سانحہ عظیم پر احتجاج اورہڑتال کیا تو قبل اس کے کہ حکومت کے پولس دستوں سے ان کا سامنا ہوتا،اکثریت طبقہ ہی سے ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ حالات نہایت کشید ہ ہوگیے۔حتی کہ جب احتجاج کی علامت کے طور پر کالا جھنڈا کے ساتھ جلوس نکالا گیا تواس پر بھی واویلا مچا۔یہی صورت ریاستی حکومتوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے کہ جب وہ کسی ریاستی امور سے متعلق مطالبہ کو لے کر آواز اٹھاتی ہے،عسکری طاقت کا استعمال کرتی ہے،تو انہیں بھی ناکامی اور بھاری نقصانات سے گزرناپڑتا ہے۔
مسائل کے حل کے جن طریقوں کا ذکر کیا گیا ،بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔بعض مسلم قائدین نے بھی ان کی اندھی تقلید میں ان ہی طریقوں کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے متعلق مسائل بجائے سلجھنے کے اور بھی پیچیدہ ہوگیے۔اور بعض اب بھی جوں کا توں ہیں۔
مسائل کے حل کے اس طریقہ کاتجربہ بعض اسلامی ممالک میں بھی اسلامی کاز کے لئے کیا گیا۔لیکن ان ممالک کو سخت دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا،حالات وہاں پہلے سے بھی زیادہ بد تر ہوگیے۔جزائر اور ترکی میں جوکچھ ہوا،اس کی زندہ مثال ہے۔صرف یہیں نہیں،بلکہ کئی اسلامی ممالک میں لوگ نفسیاتی ردعمل کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات کے شکار ہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام بھی پر خطر اورچیلنج کا کام ہو گیا ہے۔حتی کہ اسلامی شعائر بھی غیروں سے رقابت میں رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔مدارس ومساجد بھی پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی عقابی نگاہوں سے محفوظ نہیں رہیں۔
حالانکہ یہ سب کچھ ان ممالک میں ہورہا ہے،جو جمہوری ملک کہلاتا ہے۔جہاں پوری سرگرمی کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں،اور اس میں دھوکہ دہی کے وسائل و ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں پھر اسلام پسندوں کے لئے کس طرح ممکن ہے کہ وہ غیروں کے سامنے اپنا موقف رکھ سکیں گے؟۔
مسائل کے حل کے جو بھی طریقے ذکر کیے گیے ہیں،ان کے علاوہ بھی کچھ طریقے ہیں،جو مثبت سوچ اوردور رس نتائج کے حامل ثابت ہوسکتے ہیں۔ان طریقوں میں صاحب ضمیر افراد کو اعتماد میں لے کر ان کے دل میں جگہ بنایا جا سکتا ہے۔حکومت سے جڑے ذمہ دار افراد اور انتظامی امور کے بااثر افراد سے ربط و تعلق پیدا کرکے ان کے دل کے تاروں کو چھیڑ کر ضمیر کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔انہیں احوال واقعی اور صورت حال سے واقف کرایا جاسکتا ہے۔البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دوران مختلف سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے وابستہ افراد ،اپنی اس وابستگی کوتھوڑی دیر کے لئے بالائے طاق رکھ کر مفاد عامہ کو ترجیح دیں۔اسی طرح پارٹی لیڈران اور قومی تحریکات کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لے کر ان سے مثبت پہلوؤں پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ان کے سامنے موقف واضح کرنے کے لئے مسلمانوں کو قومی مفاد،نیک نیتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔چونکہ دل کا دل سے تعلق ہوتا ہے، اور اخلاص دو دلوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں پل کا کام کرتا ہے۔
غرض تحریکات اسلامی کے ذمہ دار افراد نے طریق اول کو اپنا کر دیکھ لیا،اس کے نتائج سے بھی واقف ہیں۔چاہیے کہ طریق ثانی کابھی تجربہ کرکے دیکھیں،ممکن ہے کامیابی ہاتھ آئے اورمعاملہ اس آیت کے مصداق ثابت ہوجیساکہ ارشاد باری ہے:(ترجمہ) جسمیں اورتم میں دشمنی تھی،گویا وہ تمہارا جگری دوست بن گیا ہے۔اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔)سورہ: حٰم سجدہ- آیت:(34-35 بشکریہ: الرائد؍شمارہ:23 ،جون2010
No comments:
Post a Comment