Saturday, July 10, 2010

اسلام،مسلمان اوربرطانیہ
برٹش مسلمانوں کودرپیش مسائل اور ان کا تدارک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک عمومی جائزہ

از: خورشید عالم ندوی۔۔۔۔۔۔ہیڈ آف اردوڈپارٹمنٹ،Oasis انٹرنیشنل اسکول،بنگلور

حال ہی میں برطانیہ میں اسلام پر ایک سروے کیا گیا ہے اور جو نتیجہ سامنے آیا ہے،اس نے برطانوی مسلمانوں کو دہلاکر رکھ دیاہے۔ چونکہ وہاں کی اکثر عوام نے اسلام کو شدت پسندی،عورت کے ساتھ زیادتی اور عدم مساوات سے جوڑا ہے۔کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ برطانیہ کے تقریباً 1.6 ملین مسلمانوں کا برٹش سماج پر ایک مثبت اثر پایا جاتا ہے۔
سروے کا نتیجہ بتاتا ہے کہ سروے میں شریک 58 فیصد عوام کی نظر میں اسلام اور شدت پسندی یا دہشت گردی کے درمیان کہیں نہ کہیں جوڑ ہے۔جب کہ 68فیصد عوام نے اس کو ’عورت مخالف ‘ کہا ہے۔13 فیصدی عوام ایسے ہیں جو اسلام کو پرامن طور پر دنیا کاسب سے تیز رفتار میں پھیلتا ہوا مذہب مانتے ہیں اور 6 فیصد ی عوام اسے انصاف پرور اور مساوات کا علمبردار مذہب کہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں کہ کیا برطانوی سماج کے حق میں یہاں کے مسلمانوں کا کچھ حصہ ہے؟۔تو دس افراد میں سے چارافراد کا جواب نفی میں تھا۔
ایک عام مشاہد اور تجزیہ نگار یقیناً اس نتیجہ کو بھی گذشتہ دہائیوں میں ہوئے سروے رپورٹ پر محمول کریں گے اور کہیں گے کہ عصبیت اور غیر دیانت داری سے کام لیا گیا ہے۔لیکن ایک ایسے حالات میں جب کہ مسلمانوں کو احساس جرم کا شکار بنادگیا ہواور ہر چہار جانب سے انہیں شک بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہو،ایسی صورت میں اس طرح کا نتیجہ باعث تشویش ہے۔
حالانکہ خود برطانوی مسلمان دیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ برتے جارہے سلوک کے مقابلے میں خود کو آزاد اور کم دباؤمیں محسوس کررہے ہیں۔اس کے باوجود پول کا جو نتیجہ سامنے آیاہے،برطانوی مسلمانوں کو سکتہ میں ڈال دیاہے۔
یہ پول وہاں کی ایکIslam Foundation Exploring نامی تنظیم نے کروایا تھا۔لیکن اس کے غیر متوقع نتیجہ نے خود اس فاؤنڈیشن کو بھی حیرانی میں ڈال دیا ہے۔
فاؤنڈیشن نے برطانیہ کے اکثریتی عوام کے اسلام مخالف رجحان اور خیالات کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مہم شروع کی ہے۔اس مہم کا عنوان ’Inspired by Muhammad‘ (محمدﷺ سے متاثر)رکھا گیا ہے۔ اس کے لئے بڑی تعداد میں فاؤنڈیشن نے سلک پوسٹر چھپوائے اور اس پر خوا تین کی خودمختاری،سماجی انصاف،ماحولیات کا تحفظ،رواداری اور حقوق انسانی جیسے موضوعات پر محمدؐ کی تعلیمات اور حدیث پاک لکھی گئی تھیں۔پوسٹرس نہایت جاذب نظر اور پرکشش تھے۔ہر ایک کے ساتھ ایک ٹیگ لائین منسلک تھا،جس پر لکھا تھا’Inspired by Mohammad‘ لندن انڈر گراؤنڈ،بسوں اورٹیکسیوں پر اسے چسپاں کیا گیا ہے۔ان پوسٹروں پر باعمل اور مشرع جواں سال لڑکے اورخواتین کی پورٹریٹ تصاویربھی تھیں،جو مردوزن کے درمیان برابری،ماحولیات،اور سماجی انصاف کی وکالت کرتے نظر آرہے تھے۔ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی زندگی میں یہ انقلاب محمد ؐ کی زندگی اور آپؐ کی پاکیزہ شخصیت سے متاثر ہوکر آ یا ہے۔پوسٹر میں جن چہروں کو پیش کیاگیا ہے،وہ کوئی پیشہ ورانہ ماڈ نہیں،بلکہ ان افراد کی حقیقی زندگی کے عکاس تھے۔جن کے ذریعہ عوام میں یہ تصور دینا تھا کہ برٹش ممسلم نوجوان ایک مغربی ملک کے اندر نئی طرز زندگی کی مختلف چاہتوں،خواہشوں اوراسلامی تقاضوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں کس طرح کامیاب ہیں۔
ایک پوسٹر میں ایک خاتوں بیرسٹرسلطانہ طفدارکی تصویر بھی تھی،جو حجاب میں تھی۔تصویر کے نیچے ایک کیپشن تھا۔جسمیں اس کا خیال اس طرح درج تھا:میں عورتوں کے حقوق پر یقین رکھتی ہوں،چونکہ اللہ کے رسول سے یہ ثابت ہے‘‘ ('I belive in women's rights, So did Mohammad (SAW) ' ایک دوسری خاتون کی تصویر بھی تھی،جو MTV کی سابق پرزنٹر ہیں۔کرسٹیئن بیکر نام ہے۔ انہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا ہے۔ان کا خیال اس طرح تھا:ماحولیات کے تحفظ پر میرا یمان و یقین ہے،چونکہ اللہ کے رسول نے اس کی تعلیم دی ہے۔‘‘(I believe in protecting the environment, So did Mohammad (SAW)'
ان پوسٹروں میں ایک جواں سال سماجی کارکن روبن میاکی تصویر بھی تھی جس نے اپنا خیال اس طرح ظاہر کیا تھا:’’میں سماجی انصاف پر یقین رکھتا ہوں،چونکہ اللہ کے رسول سے اس کا عملی نمونہ ملتاہے۔‘‘
فاؤنڈیشن نے inspiredbymohammad کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی بنایاہے،جس میں پوسٹروں میں جن خیالات کو جگہ دی گئی ہے۔ان کی صداقت و حمایت میں آنحضور کی تعلیمات و احادیث پیش کی گئی ہیں۔
مہم کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ جذبہ خود کی روزمرہ زندگی کے تجربات،مشاہدات سے پیداہوا اور اطراف میں اسلام سے متعلق ناواقفیت و افواہوں سے کہ اسلام ایک قدامت پسند مذہب ہے،جس پر آج کے موڈرن لائف میں عمل ممکن نہیں ہے۔
عہدہ سے بیرسٹر سلطانہ طفدار جو اپنے کام کے اوقات میں بھی حجاب میں ہوتی ہیں،کہتی ہیں’’میں حجاب میں رہ کر حقوق انسانی کے ایک بڑے پلیٹ فارم سے بحیثیت بیرسٹر کام کرتی ہوں۔مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ عورت سے متعلق اسلام کا نظریہ اور آپ کا یہ عہدہ دونوں کے درمیان خودکو کس طرح ہم آہنگ کرتی ہیں۔میرے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں ہے کہ میں خود کو دونوں کے درمیان بین بین رکھنے کے بارے میں سوچوں۔میرا عہدہ نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے اور اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ان میں ایک نام رومان ایلی کاہے،جو فاؤنڈیشن کے اس مہم کی ڈائرکٹر ہیں اور ہندی نژاد ہیں۔اگرچہ برطانیہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں لیکن ان کے والدین ہندوستانی ہیں۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی طرح بہت سے دیگر آزاد خیال مسلمان اپنی سوسائٹی کے ساتھ ہورہے ناروا سلوک اور رویے پر سخت فکر مند ہیں۔اس کے لئے وہ میڈیا کو پوری طرح ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میڈیا مسلمانوں کے لباس،وضع قطع اور غیر ضروری بحث چھیڑ کر اور یہ کہ جو برطانوی ملک کا وفادار نہیں،وہ ایک باعمل مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟۔دراصل اس طرح کی باتیں میڈیا حقیقت سے عدم واقفیت کی بنیاد پر کچھ مفروضے گڑھ لیتی ہے،اور کچھ عوام کے ذاتی ذہن کی پیداوار و خودساختہ بھی ہوتی ہیں۔مجھے ایک برٹش مسلم ہونے پر بھی فخر ہے اور مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہندوستانی تہذیبی و ثقافتی ورثے پر بھی فخر کرتی ہوں۔
آج مسلمانوں کے دوسری اور تیسری نسل کے درمیان یہ کنفیوژن بھی ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب، مغربی تہذیب سے متصادم ہے اور مغربی تہذیب کی رعنائیوں و چکاچوندمیں اسلامی تہذیب اپنی شناخت کھوتا جارہاہے، اور اب اس کی کوئی وقعت نہیں رہی۔اس طرح وہ اپنی تہذیبی شناخت کے ختم ہونے کا گمان کررہے ہیں۔ان کو اس کے پیچھے بھی میڈیا کے ذریعے سیاسی ایجنڈاکا بڑا ہاتھ نظر آتا ہے۔
لیکن ان تمام سے صرف نظر کرتے ہوئے خود مسلمان اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔کیا انہوں نے کبھی اپنے بارے میں اپنے نفس سے پوچھا ہے کہ ساری دنیا ان کے پیچھے کیوں پڑی ہے۔یہی معاملہ امریکیوں کا بھی ہے کہ وہ ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ ساری دنیا ان کے خلاف ہے۔ لیکن کبھی اس کے وجوہات پر غور نہیں کرتے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟۔
خلاصہ یہ کہ یہاں احتساب نفس کی کمی ہے۔اور یہ کمی احساس جرم کے نتیجہ میں یہ بات ایک عام خیال بن گیا ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے۔
تاہم ایلی اپنی ٹیم کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق سے شک وشبہ کے ازالہ پر کام کررہی ہیں اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں عوام میں ایک بہتر سمجھ پید اکرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ساتھ ہی برٹش سماج کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی نمایاں خدمات بھی لوگوں کے علم میں لانا چاہتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ برٹش مسلمان کیا ہیں؟۔چونکہ اکثر ان کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment