Saturday, July 17, 2010

ISLAMIC MOVEMENTS AND ITS ROLE

اسلامی تحریکات، کردارو اہداف میں اعضاء انسانی کے ہیں مانند
عربی تحریر: مولانا محمد واضح رشید حسنی ندوی،ناظم تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنؤ
ترجمہ: خورشید عالم ندوی،ایم. اے عربی و اردو۔۔۔۔۔۔ہیڈ آف اردوڈپارٹمنٹ،OASIS انٹرنیشنل اسکول،بنگلور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے طول و عرض میں مختلف میدان کے اندر اسلامی تحریکات اور تنظیمیں مختلف امور پر کام کررہی ہیں۔کچھ تنظیمیں ہیں،جو مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ پر توجہ مرکوز کئے ہوئی ہیں۔اس کے تحت مدارس و مکاتب قائم ہورہے ہیں،ایسے مراکز قائم کئے جارہے ہیں،جہاں افراد سازی اور فکری تربیت کا کام ہو رہاہے۔دوسری تنظیمیں ہیں،جو مسلمانوں کے منتشر شیرازوں کویکجا کرنے اور سیاسی صف بندی پر سرگرم عمل ہیں۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے معاشرتی و ثقافتی مسائل اور تقاضے بھی ان کے زیر غور ہوتے ہیں نیز سیاسی وسائل و ذرائع کو کام میں لا کر مناسب حل ڈھونڈے جاتے ہیں۔کچھ تنظیمیں ہیں جنکی توجہ کا مرکز مسلمانوں کے اقتصادی ومعاشی حالات ہیں۔سماج کو درپیش معاشی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نپٹنے کے لئے کل کارخانے،ٹریننگ سنٹرز کھو لے جاتے ہیں۔کچھ ایسی بھی تنظیمیں ہیں،جو مسلم بھائیوں کے درمیان تعلقات باہم کے فروغ پر کام کررہی ہیں۔ان میں بعض تنظیمیں ہیں جن کے پیش نظر مسلمانوں کو درپیش مسائل ہیں اور وہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے اسلام اورمسلمانوں کے متعلق پھیلی غلط فہمیوں اورگمراہ کن پروپیگنڈے کا ازالہ ان کا مشن ہے۔بین مذاہب سمینارو سمپوزیم کے انعقادکے ذریعے برادران وطن کے ساتھ بہتر تعلقات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا عام کرنے پر محنت کررہی ہیں۔مختلف ادیان و ملل کے مذہبی رہنماؤں اور پیشواؤں کے ساتھ گفت وشنید و ڈائیلاگ کے ذریعے بھائی چارگی کا ماحول بنانے پر کام کررہی ہیں۔انہیں میں وہ تنظیمیں بھی ہیں،جن کا دائرہ عمل دعوت و ارشاد اور تبلیغ دین ہے۔مذکورہ تمام تنظیمیں اور جماعتیں اپنے مشن و میدان کار کے اعتبار سے نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ان کے درمیان بظاہر ایک بڑا خلیج معلوم ہوتا ہے۔
غرض ہر تنظیم اور تحریک کا اپنا ایک محدوددائرہ کار ہے،ان کی سرگرمیاں وہیں تک محدود ہوتی ہیں۔نہ کسی کا عمل، دوسرے کے عمل کے ساتھ متصادم ہے اور نہ ہی دوسرے کے دائرہ عمل میں کسی قسم کی مداخلت کرتے ہیں۔البتہ بعض مرتبہ ایک دوسرے پر تنقید و تنقیح کرتے ہیں لیکن اس کامقصد صرف اصلاح اور قومی و ملی خدمات ہوتی ہیں۔اس کے سوا ان کا کوئی دوسرا ہدف نہیں ہوتا۔تنقیدو تنقیح میں انداز بیان واسلوب میں فرق سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔کبھی یہ نرم اور کبھی گرم بھی ہوسکتا ہے۔تاہم حالات جو بھی ہوں،مگر دعوت و تبلیغ کاکام کرنے والے اگر واقعی اپنے کام میں مخلص ہیں،تو انہیں اسے قبول کرنا چاہئے،بشرطیکہ بات معقول اورقابل قبول ہو۔چونکہ نقد بھی رضائے الٰہی اورانسانی سوسائٹی کی خدمت کے پیش نظر ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اتحاد باہم اوراتفاق سے مراد وہ اتفاق ہرگز نہیں ہے کہ کسی ممتاز اور اہم شخصیت کے تشخص کو مجروح کیا جائے،خواہ ان کا تعلق کسی بھی تحریک اورتنظیم سے کیوں نہ ہو۔ چونکہ انسانی طبیعت اورذہنی و فطری میلان الگ الگ ہوتے ہیں۔بعض مرتبہ ایک شخص کا خیال دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔بعض انسانی طبیعت ایسی ہوتی ہے جو ہر مسئلہ میں طاقت و قوت کے استعمال کا سہارا لینا چاہتی ہے۔ایک انسانی فطرت افہام وتفہیم ،عفوو درگذراور بھلائی و ہمدردی کے جذبہ کی طرف مائل ہوتی ہے۔اور ایک طبیعت یہ بھی ہے جس کا رجحان تعلیم و تعلم اور تہذیب وثقافت سے جڑا ہوتا ہے۔کچھ افراد زندگی میں نہایت سادگی پسند اور بعض شاہانہ عادت و اطوار کا مزاج رکھتے ہیں۔بعض کی طبیعت سماج میں باعزت طریقے سے جینے کی ہوتی ہے۔اس لئے باہمی اتحاد بروئے کار لانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ نظر کام کرنے والے کے خلوص ،وفاداری اور مشن کے اہداف پر ہو ،نہ کہ طرز عمل اور طریق کار پر۔اس طرح تمام اسلامی تحریکات اورتنظیمیں اپنے دائرہ کار وطریق کار میں اختلاف کے باوجود اپنے افعال و کردار میں جسم کے مختلف اعضاء کے مانند ہیں،جو اپنی نوعیت اور کارکردگی میں اختلاف کے باوجود مقاصد میں سب ایک ہیں۔
ان تحریکات میں بعض زبان،بعض عقل و فکراور بعض ہاتھ و دیگر جوارح کا کردار ادا کرتی ہیں۔ان سب میں اصل تحریک وہ ہے جو قلب وروح کا رول ادا کرتی ہے۔وہ ہے دل جو تمام اعضاء کو قابو میں رکھتا ہے۔اس تحریک کو ہر طرح کی طاقت و قوت کی ضرور ت ہوتی ہے۔اس کا خیال رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔تاکہ وہ امت مسلمہ کے شریانوں میں خون کے دورانیہ کو جاری و ساری رکھ سکے اور یہی کام دل کرتا ہے۔
غرض ایک خاص طبقہ ،جو کلمہ کی وحدت اورمسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی سمت میں جوکوششیں اور امت کے ان بکھرے ہوئے شیرازوں کو یکجا کرنے پر محنتیں کررہا ہے،قابل ستائش اور لا ئق استقبال ہے۔
اس امت پر اللہ کا بڑافضل ہے کہ اس نے ہر زمانے میں ایسے جیالے اور افراد پیدا کئے،جنہوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں لا کھڑا کرنے اور اس پر باقی رکھنے پر زور دیا۔لیکن ان امور پر کام کرنے والوں کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جس طرح مکان کی تعمیر میں ایک کچی اینٹ کا استعمال بھی پوری عمارت کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے،اسی طرح ہمارے کام اور کوششوں میں اسلامی روح کا فقدان مقاصدمیں ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔چنانچہ ان صاحب فکر و عمل اور اسلامی کاذ پر توجہ دینے والی شخصیات میں اگر کوئی قابل اصلاح پہلو نظر آئے تو نہایت خوش اسلوبی سے بغرض اصلاح ان پہلوؤں کی نشاندہی کرکے انہیں متوجہ کیاجا سکتا ہے۔لیکن اسلوب مثبت ہو ،تشددپسندانہ نہ ہو اور نہ اس کام کی برائی بیان کی جائے جس سے نفرت اورکدورت پیدا ہو۔آپسی تعلقات کو باقی رکھتے ہوئے مثبت پہلوؤں سے کام کیا جا سکتاہے۔lll (بشکریہ:الرائد؍شمارہ15 ؍فروری2010)

No comments:

Post a Comment