Saturday, July 10, 2010


عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں۔۔۔۔۔۔!
ٹائمس آف انڈیا میں شائع ایک سبق آموزخبرمسلم جوانوں کے نام
ترجمانی: خورشید عالم ندوی،بنگلور
7گریٹر نوئیڈا اور غازی آباد کے اطراف کے علاقوں میں جہیز کی لعنت کے خلاف لوگوں میں بیداری آئی ہے۔سماج میں پھیلی اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔ابتدائی کوششوں کے بعد محسوس کیا جارہا ہے کہ اس کے خلاف لوگوں کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے اور مثبت اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اس اصلاح معاشرہ تحریک کے پیچھے در اصل سماج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاموش جہیز مخالف مہم کارفرما ہے۔جو آج کافی تیزی سے پھلتا پھولتانظر آرہاہے۔
اس تحریک کا آغاز 7سال قبل جتندر نگر کے ایک 23 سالہ پوسٹ گریجویٹ نوجوان - جوکہ ماحولیاتی سائنس کا طالب علم تھا،سے ہوا تھا۔جب اس نے اس تحریک کی بنیاد خود اپنی شادی سے ڈالی تھی۔جب اس نے بغیر جوڑے جہیز کے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ اس فکر کا حامل واحد شخص تھا۔جب اس کی شادی عام رسم و رواج سے ہٹ کر اور بغیر جوڑے جہیز کی ہو ئی تو اس کے گھر کے لوگوں نے خوشی سے محرومی اوربدمزگی کا اظہار کیا۔لیکن بعد میں خود اس کی 71سالہ ماں حقیقی خوشی محسوس کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے اس فیصلے اور اقدام کی تعریف کی اور اعتراف کیا کہ میرے بیٹے نے بالکل صحیح فیصلہ لیا تھا۔حالانکہ یہی وہ ماں ہے جس نے شادی کے موقع پر رورو کر بیٹے کوجہیز لینے پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔لیکن بیٹے نے ماں کی ایک نہ سنی ۔
غرض انفرادی کوشش سے شروع کی گئی یہ مہم اب انفرادی کوشش نہیں رہی،بلکہ ’میں اکیلاہی چلا تھا جانب منزل کو مگر- لوگ ساتھ آتے گئے،کارواں بنتا گیا‘ کے مصداق یہ ایک مستقل کارواں بن چکا ہے۔اطراف کی 26بستیاں اس کارواں کا حصہ بن چکی ہیں۔ تحریک سے جڑے افراد گاؤں گاؤں جاکر اسکولوں میں جمع ہوتے ہیں۔گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے جہیز کی قباحت بیان کرتے ہیں اور ان سے اپیل کی جاتی ہے کہ اپنے لڑکوں کی شادی میں جہیز کا مطالبہ نہ کریں۔بتایا جاتا ہے کہ پہلے پہل لوگ اس بات پر ہنستے تھے۔لیکن چند دنوں قبل جب شری گاندھی نگر انٹر کالج میں منعقدہ ایک نششت میں ایک ہزار سے زائد لوگوں نے اس سماجی برائی سے توبہ کرکے جہیز نہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔
بستی کے لوگوں کا ماننا ہے کہ شروع میں یہ کام کسی قدرمشکل ضرور تھا۔سماج میں جڑ پکڑ چکی اس وبا سے چھٹکارہ پانا ناممکن سا لگ رہا تھا۔لیکن مودی نگر میں جب ایک شادی شدہ لڑکی کو علم ہوا کہ اس کے باپ کے دیئے ہوئے جہیز کے عوض میں اسے خوشی مل رہی ہے۔اس پر اس نے خود اپنے باپ کے خلاف شکایت درج کرادی۔ اس واقعہ نے جہیز مخالف مہم میں گویا ایک نئی جان ڈال دی اور پھر یہاں سے اس کو پروان چڑھانے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا۔
اس خیال اور تحریک کو آگے بڑھانے کا ایک اور موقع اس وقت ہا تھ آیا جب اسی کے اطراف میں کسان اپنی لڑکیوں کی شادی کے لئے زمین و جائداد فروخت کرچکے اور مزید مالی تعاون کے لئے دوسری بستی کارخ کیا ۔چونکہ مزید 15 لاکھ روپیوں کے اخراجات کا بوجھ ان پر تھا۔ان کے پاس اب کچھ نہیں بچا تھا۔تبھی یہ لوگ بھی اس تحریک سے جڑے۔اس سے قبل بھی بمبوار،دوجانا،سدل پورا اور جیولی مقامات پر جہیز مخالف مہا پنچایت بٹھایا گیاتھا۔اس سال بھی کئی مہاپنچایت اس تحریک سے جڑے ہیں۔اس بات کی اطلاع نگار نے دی ہے جو دلی یونیورسٹی میں برسر روزگار ہیں۔اس کے دو چھوٹے بھائی رویندر(ایم سی اے) اور پَون کی شادی بھی بغیر جہیز کے ہوئی ہے۔پونم نامی خاتون اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’اس تحریک سے جڑنا اتنا آسان کام نہیں تھا‘‘ پونم پہلی لڑکی ہے جو دوجنا بستی میں بغیر کسی جوڑے جہیز کے دلہن بن کر آئی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں کے لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ اس کے شوہر جتندر جہیز کے مخالف ہیں اورسختی سے وہ اسکے خلاف ہیں۔
لوگوں نے دوبارہ دریافت کرنے کو کہا۔اس پر جتندر کا جواب تھا’’میری پرورش ایک مہذب خاندان میں ہوئی ہے،ہول سیل مارکیٹ میں نہیں‘‘۔
بڑی تعداد میں لڑکیاں بھی اس تحریک کا حصہ بن رہی ہیں اور وہ اپنے ہاتھوں میں اس کے خلاف بینرس اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔سدل پور سے پرنیما نامی لڑکی جو کہ دلی کے پولس محکمہ میں کانسٹبل کے عہدہ پر فائز ہے- کہتی ہیں کہ یہ نوخیز تعلیم یافتہ نسل ہے جو اس تحریک میں شامل ہورہے ہیں۔مہاپنچایت سے قبل اسکولوں کو جاکر نوجوان نسل تک یہ پیغام پہنچانا چاہئےnn(ٹائمس آف انڈیا۔پٹنہ ایڈیشن۔مورخہ؍7 مئی2010)



No comments:

Post a Comment