Saturday, July 17, 2010

ISLAMIC MOVEMENTS AND ITS ROLE

اسلامی تحریکات، کردارو اہداف میں اعضاء انسانی کے ہیں مانند
عربی تحریر: مولانا محمد واضح رشید حسنی ندوی،ناظم تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنؤ
ترجمہ: خورشید عالم ندوی،ایم. اے عربی و اردو۔۔۔۔۔۔ہیڈ آف اردوڈپارٹمنٹ،OASIS انٹرنیشنل اسکول،بنگلور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کے طول و عرض میں مختلف میدان کے اندر اسلامی تحریکات اور تنظیمیں مختلف امور پر کام کررہی ہیں۔کچھ تنظیمیں ہیں،جو مسلمانوں میں تعلیم کے فروغ پر توجہ مرکوز کئے ہوئی ہیں۔اس کے تحت مدارس و مکاتب قائم ہورہے ہیں،ایسے مراکز قائم کئے جارہے ہیں،جہاں افراد سازی اور فکری تربیت کا کام ہو رہاہے۔دوسری تنظیمیں ہیں،جو مسلمانوں کے منتشر شیرازوں کویکجا کرنے اور سیاسی صف بندی پر سرگرم عمل ہیں۔اس کے ساتھ ہی مسلمانوں کے معاشرتی و ثقافتی مسائل اور تقاضے بھی ان کے زیر غور ہوتے ہیں نیز سیاسی وسائل و ذرائع کو کام میں لا کر مناسب حل ڈھونڈے جاتے ہیں۔کچھ تنظیمیں ہیں جنکی توجہ کا مرکز مسلمانوں کے اقتصادی ومعاشی حالات ہیں۔سماج کو درپیش معاشی اور بے روزگاری جیسے مسائل سے نپٹنے کے لئے کل کارخانے،ٹریننگ سنٹرز کھو لے جاتے ہیں۔کچھ ایسی بھی تنظیمیں ہیں،جو مسلم بھائیوں کے درمیان تعلقات باہم کے فروغ پر کام کررہی ہیں۔ان میں بعض تنظیمیں ہیں جن کے پیش نظر مسلمانوں کو درپیش مسائل ہیں اور وہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے اسلام اورمسلمانوں کے متعلق پھیلی غلط فہمیوں اورگمراہ کن پروپیگنڈے کا ازالہ ان کا مشن ہے۔بین مذاہب سمینارو سمپوزیم کے انعقادکے ذریعے برادران وطن کے ساتھ بہتر تعلقات اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضا عام کرنے پر محنت کررہی ہیں۔مختلف ادیان و ملل کے مذہبی رہنماؤں اور پیشواؤں کے ساتھ گفت وشنید و ڈائیلاگ کے ذریعے بھائی چارگی کا ماحول بنانے پر کام کررہی ہیں۔انہیں میں وہ تنظیمیں بھی ہیں،جن کا دائرہ عمل دعوت و ارشاد اور تبلیغ دین ہے۔مذکورہ تمام تنظیمیں اور جماعتیں اپنے مشن و میدان کار کے اعتبار سے نہ صرف ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ان کے درمیان بظاہر ایک بڑا خلیج معلوم ہوتا ہے۔
غرض ہر تنظیم اور تحریک کا اپنا ایک محدوددائرہ کار ہے،ان کی سرگرمیاں وہیں تک محدود ہوتی ہیں۔نہ کسی کا عمل، دوسرے کے عمل کے ساتھ متصادم ہے اور نہ ہی دوسرے کے دائرہ عمل میں کسی قسم کی مداخلت کرتے ہیں۔البتہ بعض مرتبہ ایک دوسرے پر تنقید و تنقیح کرتے ہیں لیکن اس کامقصد صرف اصلاح اور قومی و ملی خدمات ہوتی ہیں۔اس کے سوا ان کا کوئی دوسرا ہدف نہیں ہوتا۔تنقیدو تنقیح میں انداز بیان واسلوب میں فرق سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔کبھی یہ نرم اور کبھی گرم بھی ہوسکتا ہے۔تاہم حالات جو بھی ہوں،مگر دعوت و تبلیغ کاکام کرنے والے اگر واقعی اپنے کام میں مخلص ہیں،تو انہیں اسے قبول کرنا چاہئے،بشرطیکہ بات معقول اورقابل قبول ہو۔چونکہ نقد بھی رضائے الٰہی اورانسانی سوسائٹی کی خدمت کے پیش نظر ہے۔
یہاں یہ بات ملحوظ رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اتحاد باہم اوراتفاق سے مراد وہ اتفاق ہرگز نہیں ہے کہ کسی ممتاز اور اہم شخصیت کے تشخص کو مجروح کیا جائے،خواہ ان کا تعلق کسی بھی تحریک اورتنظیم سے کیوں نہ ہو۔ چونکہ انسانی طبیعت اورذہنی و فطری میلان الگ الگ ہوتے ہیں۔بعض مرتبہ ایک شخص کا خیال دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔بعض انسانی طبیعت ایسی ہوتی ہے جو ہر مسئلہ میں طاقت و قوت کے استعمال کا سہارا لینا چاہتی ہے۔ایک انسانی فطرت افہام وتفہیم ،عفوو درگذراور بھلائی و ہمدردی کے جذبہ کی طرف مائل ہوتی ہے۔اور ایک طبیعت یہ بھی ہے جس کا رجحان تعلیم و تعلم اور تہذیب وثقافت سے جڑا ہوتا ہے۔کچھ افراد زندگی میں نہایت سادگی پسند اور بعض شاہانہ عادت و اطوار کا مزاج رکھتے ہیں۔بعض کی طبیعت سماج میں باعزت طریقے سے جینے کی ہوتی ہے۔اس لئے باہمی اتحاد بروئے کار لانے کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ نظر کام کرنے والے کے خلوص ،وفاداری اور مشن کے اہداف پر ہو ،نہ کہ طرز عمل اور طریق کار پر۔اس طرح تمام اسلامی تحریکات اورتنظیمیں اپنے دائرہ کار وطریق کار میں اختلاف کے باوجود اپنے افعال و کردار میں جسم کے مختلف اعضاء کے مانند ہیں،جو اپنی نوعیت اور کارکردگی میں اختلاف کے باوجود مقاصد میں سب ایک ہیں۔
ان تحریکات میں بعض زبان،بعض عقل و فکراور بعض ہاتھ و دیگر جوارح کا کردار ادا کرتی ہیں۔ان سب میں اصل تحریک وہ ہے جو قلب وروح کا رول ادا کرتی ہے۔وہ ہے دل جو تمام اعضاء کو قابو میں رکھتا ہے۔اس تحریک کو ہر طرح کی طاقت و قوت کی ضرور ت ہوتی ہے۔اس کا خیال رکھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔تاکہ وہ امت مسلمہ کے شریانوں میں خون کے دورانیہ کو جاری و ساری رکھ سکے اور یہی کام دل کرتا ہے۔
غرض ایک خاص طبقہ ،جو کلمہ کی وحدت اورمسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی سمت میں جوکوششیں اور امت کے ان بکھرے ہوئے شیرازوں کو یکجا کرنے پر محنتیں کررہا ہے،قابل ستائش اور لا ئق استقبال ہے۔
اس امت پر اللہ کا بڑافضل ہے کہ اس نے ہر زمانے میں ایسے جیالے اور افراد پیدا کئے،جنہوں نے مسلمانوں کو ایک صف میں لا کھڑا کرنے اور اس پر باقی رکھنے پر زور دیا۔لیکن ان امور پر کام کرنے والوں کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ جس طرح مکان کی تعمیر میں ایک کچی اینٹ کا استعمال بھی پوری عمارت کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے،اسی طرح ہمارے کام اور کوششوں میں اسلامی روح کا فقدان مقاصدمیں ناکامی کا سبب بن سکتا ہے۔چنانچہ ان صاحب فکر و عمل اور اسلامی کاذ پر توجہ دینے والی شخصیات میں اگر کوئی قابل اصلاح پہلو نظر آئے تو نہایت خوش اسلوبی سے بغرض اصلاح ان پہلوؤں کی نشاندہی کرکے انہیں متوجہ کیاجا سکتا ہے۔لیکن اسلوب مثبت ہو ،تشددپسندانہ نہ ہو اور نہ اس کام کی برائی بیان کی جائے جس سے نفرت اورکدورت پیدا ہو۔آپسی تعلقات کو باقی رکھتے ہوئے مثبت پہلوؤں سے کام کیا جا سکتاہے۔lll (بشکریہ:الرائد؍شمارہ15 ؍فروری2010)

Saturday, July 10, 2010

اصلاحی تحریکیں اور ان کیلئے متبادل طریقہ کار
]عربی تحریر: مولانا سید واضح رشید ندوی،ناظم تعلیمات ندوۃ العلماء لکھنؤ
Xترجمہ و تلخیص:خورشید عالم ندوی،ایم اے عربی؍اردو

حقوق طلب کرنے،ظلم و استبداد سے چھٹکارہ پانے یاعوام مخالف حالات کے رخ کو پھیرنے کے لئے آج کل جو کوششیں کی جارہی ہیں،ان میں زیادہ تر جماعتیں اور تحریکیں وجود میں آتی ہیںیا رائے عامہ کے ذریعہ انفرادی طاقتوں کو منظم شکل دے کر مطالبات رکھے جاتے ہیں اور احتجاج کا طریقہ اپنا کر شکایتیں دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہیں۔مطالبات منظور کرانے کے لئے بھوک ہڑتال،کام ہڑتال،جلسے جلوس اور دھرنوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔یہ وہ طریق کار ہیں جو انسان کو طاقت و قوت اور بسا اوقات تشدد کے راستے اختیار کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔چونکہ مظلومیت اور محرومیت کا احساس و شعور جب حد کو تجاوز کرجاتا ہے،تو نفرت کا روپ دھار لیتا ہے۔مظلوم اور بے کس افراد کے یہ رویے کبھی کبھی حریف جماعت یا طبقہ کو بغض و عناد کی راہ پر لے جاتا ہے اور یہ جماعت طاقت کے بل پر اسے کچل ڈالنے کے در پہ آجاتی ہے۔اس میں غریب اور کمزور طبقہ اور بھی دب کر رہ جاتا ہے۔اس کے برعکس کبھی حکومت ان کے مطالبات ماننے پر مجبور بھی ہو جاتی ہے۔مطالبہ کرنے والی جماعت اگر کمزور ہے اور اپنی بات منوانے میں ناکام رہی تو پھر وہ کسی جماعت یا فرقہ کے نظر میں آجاتی ہے اور ہمیشہ اس کے استحصال کا شکار رہتی ہے۔
مذکورہ بالا سارے حربے اوروسائل ایک ایسے جمہوری ملک میں اپنایا جاتا ہے جہاں باشندگان وطن کو اپنے حق کے مطالبے ،احتجاج اور اظہار رائے کادستوری حق حاصل ہے۔مسائل اور معاملات کے حل کے دوسرے بھی طریقے ہیں۔باہم بات چیت ،گفت و شنیداور انسان کے ضمیر کو اپیل کرکے بھی کام لیا جاسکتا ہے۔انسان خواہ جتنا بھی مغرور اور متکبر ہو،مگر اس کا دل ایک نرم گوشہ اور حساس شعور سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔حتی کہ وہ سرکش اور ظالم شخص جو بے قصوروں کے خون بہاتا ہے،بعض دفعہ اس کا دل بھی نرم پڑ جاتا ہے۔چنانچہ جب اس کے حساس شعور کوچھیڑا جاتا ہے،تو اس کے اندر کی دنیا بدل جاتی ہے۔بڑی سے بڑی جابر اور ظالم طاقت بھی نرم پڑ گئی ہے۔اس طریقہ کو اپنانے میں کسی مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑتا اور نہ ہی فریقین کے درمیان رسہ کشی اور کشیدگی کی صورت کا امکان رہتا ہے۔خواہ ایک فریق طاقت و قوت اور وسائل و ذرائع سے لیس ہو اور دوسرا فریق کمزور کیوں نہ ہو۔
سیاسی قائدین ان طریقوں کواختیار نہیں کرتے۔حالانکہ وہ سیاسی استحکام کی بات کرتے ہیں۔عوامی مسائل و مشکلات کو اپنی سیاسی پوزیشن کے استحکام وترقی کا زینہ سمجھتے ہیں۔لیکن ان سب کے برخلاف باغیانیہ اور احتجاجی ذہنیت ان سب طریقہ کار پر غالب رہتی ہے۔ممکن ہے یہ مغربی طرز عمل اور وہاں کی بعض تخریب کار تحریکوں کے زیر اثر ایسا ہوتا ہو۔لیکن ایک بات مسلم ہے کہ اگر اس کے پیچھے کو ئی تخریب کار تحریکی عوامل کارفرما ہیں ،تو ان کا اصل مقاصد کے حصول سے نہ تو کوئی سروکار ہوتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کے اصول وضوابط کا پاس و لحاظ ہوتا ہے۔بہر کیف ہنگامہ آرائی اور طاقت کے زور پر حقوق کے مطالبات کا رجحان عام ہو گیا ہے۔عموماً ایسے مشکلات کھڑے کر دیے جاتے ہیں جن کے سامنے حکومت کسی سبب سے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔لیکن اس کا نتیجہ مختلف ہو تا ہے۔کبھی تو حکومت حالات پر قابو پانے اور جانی و مالی نقصانات سے بچنے کے لئے ایسا قدم اٹھاتی ہے۔اس کے برعکس کبھی حکومت کا موقف سخت ہوجاتا ہے اور اپنے خلاف اٹھنے والی طاقت کو کچلنے اور دبانے کے لئے اپنی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ایسی صورت میں احتجاج پسندوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ایسے میں وہ بے قصور افراد بھی اپنی ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، جو ایسی سرگرمیوں میں شریک تو درکنار،اسے دل سے بھی برا سمجھتے ہیں۔
ان طور طریقوں سے متاثر ہو کر کئی اسلامی ممالک کی بعض تحریکوں نے بھی اس نوعیت کے رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔تاکہ وہ بھی معاصر سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے شانہ بشانہ چل سکیں۔مثلاً ردعمل کے طور پر کوئی ایسا تشددپسندانہ اقدام کرگزرنا جو اس سے قبل کی جماعتوں کی جانب سے ہوتے آیا ہے۔
اس طرح کے واقعات کے یقیناً کچھ اسباب ہوتے ہیں،بعض مرتبہ سیاسی ،معاشی اور سماجی خستہ حالی ان کو ا ن کاموں پر مجبور کرتے ہیں تو کبھی سماجی ناانصافی،قانونی دباء ،فرقہ واریت اور محرومیت کا احساس و شعور ان کا سبب بنتے ہیں۔بہر حال نتیجہ انتہائی خسارہ کا ہوتا ہے۔اور گھاٹے کا یہ سلسلہ تقریباً گذشتہ پچاس سالوں سے جاری ہے۔پھربھی یہ جماعتیں اور تحریکات مقامی حکومتوں پر دباؤ بنانے میں ناکام ہیں۔حالانکہ سیاسی تنظیمیں اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔
تشدد پسندی اور احتجاجی ذہنیت کا خطرہ ان حالات میں اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے،جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔چاروں اطراف اکثریت طبقہ کا بولا بالا اور ان کا رعب و دبدبہ ہو۔خصوصاً جب دو فرقہ کے درمیان رسہ کشی و عدم اطمینان کی کیفیت ہو۔
جب مسلمانوں نے اپنے حقوق کو لے کر جلوس نکالے،احتجاج کیے،تو اکثریت طبقہ نے اس کی مخالفت میں ان پر ہلہ بول دیا،اس سے پہلے کہ حکومت اس پر کوئی قدم اٹھاتی ۔
ملک میں بابری مسجد سانحہ کے موقع پر مسلمانوں کو اس کا تجربہ ہوا۔جب مسلمانوں نے اس سانحہ عظیم پر احتجاج اورہڑتال کیا تو قبل اس کے کہ حکومت کے پولس دستوں سے ان کا سامنا ہوتا،اکثریت طبقہ ہی سے ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔نتیجہ یہ ہوا کہ حالات نہایت کشید ہ ہوگیے۔حتی کہ جب احتجاج کی علامت کے طور پر کالا جھنڈا کے ساتھ جلوس نکالا گیا تواس پر بھی واویلا مچا۔یہی صورت ریاستی حکومتوں کے ساتھ بھی پیش آتا ہے کہ جب وہ کسی ریاستی امور سے متعلق مطالبہ کو لے کر آواز اٹھاتی ہے،عسکری طاقت کا استعمال کرتی ہے،تو انہیں بھی ناکامی اور بھاری نقصانات سے گزرناپڑتا ہے۔
مسائل کے حل کے جن طریقوں کا ذکر کیا گیا ،بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کا بھی یہی شیوہ رہا ہے۔بعض مسلم قائدین نے بھی ان کی اندھی تقلید میں ان ہی طریقوں کو اختیار کرنے کی کوشش کی۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں سے متعلق مسائل بجائے سلجھنے کے اور بھی پیچیدہ ہوگیے۔اور بعض اب بھی جوں کا توں ہیں۔
مسائل کے حل کے اس طریقہ کاتجربہ بعض اسلامی ممالک میں بھی اسلامی کاز کے لئے کیا گیا۔لیکن ان ممالک کو سخت دشواریوں سے دوچار ہونا پڑا،حالات وہاں پہلے سے بھی زیادہ بد تر ہوگیے۔جزائر اور ترکی میں جوکچھ ہوا،اس کی زندہ مثال ہے۔صرف یہیں نہیں،بلکہ کئی اسلامی ممالک میں لوگ نفسیاتی ردعمل کے نتیجے میں پیدا شدہ حالات کے شکار ہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام بھی پر خطر اورچیلنج کا کام ہو گیا ہے۔حتی کہ اسلامی شعائر بھی غیروں سے رقابت میں رکاوٹ سمجھے جارہے ہیں۔مدارس ومساجد بھی پولس اور خفیہ ایجنسیوں کی عقابی نگاہوں سے محفوظ نہیں رہیں۔
حالانکہ یہ سب کچھ ان ممالک میں ہورہا ہے،جو جمہوری ملک کہلاتا ہے۔جہاں پوری سرگرمی کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں،اور اس میں دھوکہ دہی کے وسائل و ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ایسی صورت میں پھر اسلام پسندوں کے لئے کس طرح ممکن ہے کہ وہ غیروں کے سامنے اپنا موقف رکھ سکیں گے؟۔
مسائل کے حل کے جو بھی طریقے ذکر کیے گیے ہیں،ان کے علاوہ بھی کچھ طریقے ہیں،جو مثبت سوچ اوردور رس نتائج کے حامل ثابت ہوسکتے ہیں۔ان طریقوں میں صاحب ضمیر افراد کو اعتماد میں لے کر ان کے دل میں جگہ بنایا جا سکتا ہے۔حکومت سے جڑے ذمہ دار افراد اور انتظامی امور کے بااثر افراد سے ربط و تعلق پیدا کرکے ان کے دل کے تاروں کو چھیڑ کر ضمیر کو بیدار کیا جاسکتا ہے۔انہیں احوال واقعی اور صورت حال سے واقف کرایا جاسکتا ہے۔البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دوران مختلف سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے وابستہ افراد ،اپنی اس وابستگی کوتھوڑی دیر کے لئے بالائے طاق رکھ کر مفاد عامہ کو ترجیح دیں۔اسی طرح پارٹی لیڈران اور قومی تحریکات کے ذمہ داروں کو اعتماد میں لے کر ان سے مثبت پہلوؤں پر بات چیت کی جاسکتی ہے۔ان کے سامنے موقف واضح کرنے کے لئے مسلمانوں کو قومی مفاد،نیک نیتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔چونکہ دل کا دل سے تعلق ہوتا ہے، اور اخلاص دو دلوں کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں پل کا کام کرتا ہے۔
غرض تحریکات اسلامی کے ذمہ دار افراد نے طریق اول کو اپنا کر دیکھ لیا،اس کے نتائج سے بھی واقف ہیں۔چاہیے کہ طریق ثانی کابھی تجربہ کرکے دیکھیں،ممکن ہے کامیابی ہاتھ آئے اورمعاملہ اس آیت کے مصداق ثابت ہوجیساکہ ارشاد باری ہے:(ترجمہ) جسمیں اورتم میں دشمنی تھی،گویا وہ تمہارا جگری دوست بن گیا ہے۔اور یہ بات ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرنے والے ہیں، اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے نصیب والے ہیں۔)سورہ: حٰم سجدہ- آیت:(34-35 بشکریہ: الرائد؍شمارہ:23 ،جون2010



اسلام،مسلمان اوربرطانیہ
برٹش مسلمانوں کودرپیش مسائل اور ان کا تدارک۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک عمومی جائزہ

از: خورشید عالم ندوی۔۔۔۔۔۔ہیڈ آف اردوڈپارٹمنٹ،Oasis انٹرنیشنل اسکول،بنگلور

حال ہی میں برطانیہ میں اسلام پر ایک سروے کیا گیا ہے اور جو نتیجہ سامنے آیا ہے،اس نے برطانوی مسلمانوں کو دہلاکر رکھ دیاہے۔ چونکہ وہاں کی اکثر عوام نے اسلام کو شدت پسندی،عورت کے ساتھ زیادتی اور عدم مساوات سے جوڑا ہے۔کچھ لوگوں کاخیال ہے کہ برطانیہ کے تقریباً 1.6 ملین مسلمانوں کا برٹش سماج پر ایک مثبت اثر پایا جاتا ہے۔
سروے کا نتیجہ بتاتا ہے کہ سروے میں شریک 58 فیصد عوام کی نظر میں اسلام اور شدت پسندی یا دہشت گردی کے درمیان کہیں نہ کہیں جوڑ ہے۔جب کہ 68فیصد عوام نے اس کو ’عورت مخالف ‘ کہا ہے۔13 فیصدی عوام ایسے ہیں جو اسلام کو پرامن طور پر دنیا کاسب سے تیز رفتار میں پھیلتا ہوا مذہب مانتے ہیں اور 6 فیصد ی عوام اسے انصاف پرور اور مساوات کا علمبردار مذہب کہتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں کہ کیا برطانوی سماج کے حق میں یہاں کے مسلمانوں کا کچھ حصہ ہے؟۔تو دس افراد میں سے چارافراد کا جواب نفی میں تھا۔
ایک عام مشاہد اور تجزیہ نگار یقیناً اس نتیجہ کو بھی گذشتہ دہائیوں میں ہوئے سروے رپورٹ پر محمول کریں گے اور کہیں گے کہ عصبیت اور غیر دیانت داری سے کام لیا گیا ہے۔لیکن ایک ایسے حالات میں جب کہ مسلمانوں کو احساس جرم کا شکار بنادگیا ہواور ہر چہار جانب سے انہیں شک بھری نگاہوں سے دیکھا جارہا ہو،ایسی صورت میں اس طرح کا نتیجہ باعث تشویش ہے۔
حالانکہ خود برطانوی مسلمان دیگر مغربی ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ برتے جارہے سلوک کے مقابلے میں خود کو آزاد اور کم دباؤمیں محسوس کررہے ہیں۔اس کے باوجود پول کا جو نتیجہ سامنے آیاہے،برطانوی مسلمانوں کو سکتہ میں ڈال دیاہے۔
یہ پول وہاں کی ایکIslam Foundation Exploring نامی تنظیم نے کروایا تھا۔لیکن اس کے غیر متوقع نتیجہ نے خود اس فاؤنڈیشن کو بھی حیرانی میں ڈال دیا ہے۔
فاؤنڈیشن نے برطانیہ کے اکثریتی عوام کے اسلام مخالف رجحان اور خیالات کو چیلنج کرتے ہوئے ایک مہم شروع کی ہے۔اس مہم کا عنوان ’Inspired by Muhammad‘ (محمدﷺ سے متاثر)رکھا گیا ہے۔ اس کے لئے بڑی تعداد میں فاؤنڈیشن نے سلک پوسٹر چھپوائے اور اس پر خوا تین کی خودمختاری،سماجی انصاف،ماحولیات کا تحفظ،رواداری اور حقوق انسانی جیسے موضوعات پر محمدؐ کی تعلیمات اور حدیث پاک لکھی گئی تھیں۔پوسٹرس نہایت جاذب نظر اور پرکشش تھے۔ہر ایک کے ساتھ ایک ٹیگ لائین منسلک تھا،جس پر لکھا تھا’Inspired by Mohammad‘ لندن انڈر گراؤنڈ،بسوں اورٹیکسیوں پر اسے چسپاں کیا گیا ہے۔ان پوسٹروں پر باعمل اور مشرع جواں سال لڑکے اورخواتین کی پورٹریٹ تصاویربھی تھیں،جو مردوزن کے درمیان برابری،ماحولیات،اور سماجی انصاف کی وکالت کرتے نظر آرہے تھے۔ان کا دعویٰ تھا کہ ان کی زندگی میں یہ انقلاب محمد ؐ کی زندگی اور آپؐ کی پاکیزہ شخصیت سے متاثر ہوکر آ یا ہے۔پوسٹر میں جن چہروں کو پیش کیاگیا ہے،وہ کوئی پیشہ ورانہ ماڈ نہیں،بلکہ ان افراد کی حقیقی زندگی کے عکاس تھے۔جن کے ذریعہ عوام میں یہ تصور دینا تھا کہ برٹش ممسلم نوجوان ایک مغربی ملک کے اندر نئی طرز زندگی کی مختلف چاہتوں،خواہشوں اوراسلامی تقاضوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں کس طرح کامیاب ہیں۔
ایک پوسٹر میں ایک خاتوں بیرسٹرسلطانہ طفدارکی تصویر بھی تھی،جو حجاب میں تھی۔تصویر کے نیچے ایک کیپشن تھا۔جسمیں اس کا خیال اس طرح درج تھا:میں عورتوں کے حقوق پر یقین رکھتی ہوں،چونکہ اللہ کے رسول سے یہ ثابت ہے‘‘ ('I belive in women's rights, So did Mohammad (SAW) ' ایک دوسری خاتون کی تصویر بھی تھی،جو MTV کی سابق پرزنٹر ہیں۔کرسٹیئن بیکر نام ہے۔ انہوں نے بعد میں اسلام قبول کیا ہے۔ان کا خیال اس طرح تھا:ماحولیات کے تحفظ پر میرا یمان و یقین ہے،چونکہ اللہ کے رسول نے اس کی تعلیم دی ہے۔‘‘(I believe in protecting the environment, So did Mohammad (SAW)'
ان پوسٹروں میں ایک جواں سال سماجی کارکن روبن میاکی تصویر بھی تھی جس نے اپنا خیال اس طرح ظاہر کیا تھا:’’میں سماجی انصاف پر یقین رکھتا ہوں،چونکہ اللہ کے رسول سے اس کا عملی نمونہ ملتاہے۔‘‘
فاؤنڈیشن نے inspiredbymohammad کے نام سے ایک ویب سائٹ بھی بنایاہے،جس میں پوسٹروں میں جن خیالات کو جگہ دی گئی ہے۔ان کی صداقت و حمایت میں آنحضور کی تعلیمات و احادیث پیش کی گئی ہیں۔
مہم کارکنان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ جذبہ خود کی روزمرہ زندگی کے تجربات،مشاہدات سے پیداہوا اور اطراف میں اسلام سے متعلق ناواقفیت و افواہوں سے کہ اسلام ایک قدامت پسند مذہب ہے،جس پر آج کے موڈرن لائف میں عمل ممکن نہیں ہے۔
عہدہ سے بیرسٹر سلطانہ طفدار جو اپنے کام کے اوقات میں بھی حجاب میں ہوتی ہیں،کہتی ہیں’’میں حجاب میں رہ کر حقوق انسانی کے ایک بڑے پلیٹ فارم سے بحیثیت بیرسٹر کام کرتی ہوں۔مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ عورت سے متعلق اسلام کا نظریہ اور آپ کا یہ عہدہ دونوں کے درمیان خودکو کس طرح ہم آہنگ کرتی ہیں۔میرے پاس اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں کوئی ایسا مسئلہ ہی نہیں ہے کہ میں خود کو دونوں کے درمیان بین بین رکھنے کے بارے میں سوچوں۔میرا عہدہ نظریہ اسلام کے عین مطابق ہے اور اسلام اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
ان میں ایک نام رومان ایلی کاہے،جو فاؤنڈیشن کے اس مہم کی ڈائرکٹر ہیں اور ہندی نژاد ہیں۔اگرچہ برطانیہ میں پیدا ہوئیں اور وہیں پلی بڑھیں لیکن ان کے والدین ہندوستانی ہیں۔
اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ان کی طرح بہت سے دیگر آزاد خیال مسلمان اپنی سوسائٹی کے ساتھ ہورہے ناروا سلوک اور رویے پر سخت فکر مند ہیں۔اس کے لئے وہ میڈیا کو پوری طرح ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میڈیا مسلمانوں کے لباس،وضع قطع اور غیر ضروری بحث چھیڑ کر اور یہ کہ جو برطانوی ملک کا وفادار نہیں،وہ ایک باعمل مسلمان کیسے ہو سکتا ہے؟۔دراصل اس طرح کی باتیں میڈیا حقیقت سے عدم واقفیت کی بنیاد پر کچھ مفروضے گڑھ لیتی ہے،اور کچھ عوام کے ذاتی ذہن کی پیداوار و خودساختہ بھی ہوتی ہیں۔مجھے ایک برٹش مسلم ہونے پر بھی فخر ہے اور مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہندوستانی تہذیبی و ثقافتی ورثے پر بھی فخر کرتی ہوں۔
آج مسلمانوں کے دوسری اور تیسری نسل کے درمیان یہ کنفیوژن بھی ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب، مغربی تہذیب سے متصادم ہے اور مغربی تہذیب کی رعنائیوں و چکاچوندمیں اسلامی تہذیب اپنی شناخت کھوتا جارہاہے، اور اب اس کی کوئی وقعت نہیں رہی۔اس طرح وہ اپنی تہذیبی شناخت کے ختم ہونے کا گمان کررہے ہیں۔ان کو اس کے پیچھے بھی میڈیا کے ذریعے سیاسی ایجنڈاکا بڑا ہاتھ نظر آتا ہے۔
لیکن ان تمام سے صرف نظر کرتے ہوئے خود مسلمان اپنے بارے میں کیا کہتے ہیں۔کیا انہوں نے کبھی اپنے بارے میں اپنے نفس سے پوچھا ہے کہ ساری دنیا ان کے پیچھے کیوں پڑی ہے۔یہی معاملہ امریکیوں کا بھی ہے کہ وہ ہمیشہ یہی سوچتے ہیں کہ ساری دنیا ان کے خلاف ہے۔ لیکن کبھی اس کے وجوہات پر غور نہیں کرتے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟۔
خلاصہ یہ کہ یہاں احتساب نفس کی کمی ہے۔اور یہ کمی احساس جرم کے نتیجہ میں یہ بات ایک عام خیال بن گیا ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے خلاف سازش ہورہی ہے۔
تاہم ایلی اپنی ٹیم کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق سے شک وشبہ کے ازالہ پر کام کررہی ہیں اور اسلام و مسلمانوں کے بارے میں عوام میں ایک بہتر سمجھ پید اکرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ساتھ ہی برٹش سماج کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں کی نمایاں خدمات بھی لوگوں کے علم میں لانا چاہتی ہیں اور بتانا چاہتی ہیں کہ برٹش مسلمان کیا ہیں؟۔چونکہ اکثر ان کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں۔۔۔۔۔۔!
ٹائمس آف انڈیا میں شائع ایک سبق آموزخبرمسلم جوانوں کے نام
ترجمانی: خورشید عالم ندوی،بنگلور
7گریٹر نوئیڈا اور غازی آباد کے اطراف کے علاقوں میں جہیز کی لعنت کے خلاف لوگوں میں بیداری آئی ہے۔سماج میں پھیلی اس بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں۔ابتدائی کوششوں کے بعد محسوس کیا جارہا ہے کہ اس کے خلاف لوگوں کے رجحان میں تبدیلی آئی ہے اور مثبت اثرات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
اس اصلاح معاشرہ تحریک کے پیچھے در اصل سماج کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاموش جہیز مخالف مہم کارفرما ہے۔جو آج کافی تیزی سے پھلتا پھولتانظر آرہاہے۔
اس تحریک کا آغاز 7سال قبل جتندر نگر کے ایک 23 سالہ پوسٹ گریجویٹ نوجوان - جوکہ ماحولیاتی سائنس کا طالب علم تھا،سے ہوا تھا۔جب اس نے اس تحریک کی بنیاد خود اپنی شادی سے ڈالی تھی۔جب اس نے بغیر جوڑے جہیز کے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو وہ اس فکر کا حامل واحد شخص تھا۔جب اس کی شادی عام رسم و رواج سے ہٹ کر اور بغیر جوڑے جہیز کی ہو ئی تو اس کے گھر کے لوگوں نے خوشی سے محرومی اوربدمزگی کا اظہار کیا۔لیکن بعد میں خود اس کی 71سالہ ماں حقیقی خوشی محسوس کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے اس فیصلے اور اقدام کی تعریف کی اور اعتراف کیا کہ میرے بیٹے نے بالکل صحیح فیصلہ لیا تھا۔حالانکہ یہی وہ ماں ہے جس نے شادی کے موقع پر رورو کر بیٹے کوجہیز لینے پر آمادہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔لیکن بیٹے نے ماں کی ایک نہ سنی ۔
غرض انفرادی کوشش سے شروع کی گئی یہ مہم اب انفرادی کوشش نہیں رہی،بلکہ ’میں اکیلاہی چلا تھا جانب منزل کو مگر- لوگ ساتھ آتے گئے،کارواں بنتا گیا‘ کے مصداق یہ ایک مستقل کارواں بن چکا ہے۔اطراف کی 26بستیاں اس کارواں کا حصہ بن چکی ہیں۔ تحریک سے جڑے افراد گاؤں گاؤں جاکر اسکولوں میں جمع ہوتے ہیں۔گاؤں کے لوگوں کو جمع کرکے جہیز کی قباحت بیان کرتے ہیں اور ان سے اپیل کی جاتی ہے کہ اپنے لڑکوں کی شادی میں جہیز کا مطالبہ نہ کریں۔بتایا جاتا ہے کہ پہلے پہل لوگ اس بات پر ہنستے تھے۔لیکن چند دنوں قبل جب شری گاندھی نگر انٹر کالج میں منعقدہ ایک نششت میں ایک ہزار سے زائد لوگوں نے اس سماجی برائی سے توبہ کرکے جہیز نہ لینے کا عزم ظاہر کیا۔
بستی کے لوگوں کا ماننا ہے کہ شروع میں یہ کام کسی قدرمشکل ضرور تھا۔سماج میں جڑ پکڑ چکی اس وبا سے چھٹکارہ پانا ناممکن سا لگ رہا تھا۔لیکن مودی نگر میں جب ایک شادی شدہ لڑکی کو علم ہوا کہ اس کے باپ کے دیئے ہوئے جہیز کے عوض میں اسے خوشی مل رہی ہے۔اس پر اس نے خود اپنے باپ کے خلاف شکایت درج کرادی۔ اس واقعہ نے جہیز مخالف مہم میں گویا ایک نئی جان ڈال دی اور پھر یہاں سے اس کو پروان چڑھانے کا ایک سنہرا موقع ہاتھ آگیا۔
اس خیال اور تحریک کو آگے بڑھانے کا ایک اور موقع اس وقت ہا تھ آیا جب اسی کے اطراف میں کسان اپنی لڑکیوں کی شادی کے لئے زمین و جائداد فروخت کرچکے اور مزید مالی تعاون کے لئے دوسری بستی کارخ کیا ۔چونکہ مزید 15 لاکھ روپیوں کے اخراجات کا بوجھ ان پر تھا۔ان کے پاس اب کچھ نہیں بچا تھا۔تبھی یہ لوگ بھی اس تحریک سے جڑے۔اس سے قبل بھی بمبوار،دوجانا،سدل پورا اور جیولی مقامات پر جہیز مخالف مہا پنچایت بٹھایا گیاتھا۔اس سال بھی کئی مہاپنچایت اس تحریک سے جڑے ہیں۔اس بات کی اطلاع نگار نے دی ہے جو دلی یونیورسٹی میں برسر روزگار ہیں۔اس کے دو چھوٹے بھائی رویندر(ایم سی اے) اور پَون کی شادی بھی بغیر جہیز کے ہوئی ہے۔پونم نامی خاتون اپنے خیالات ظاہر کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’اس تحریک سے جڑنا اتنا آسان کام نہیں تھا‘‘ پونم پہلی لڑکی ہے جو دوجنا بستی میں بغیر کسی جوڑے جہیز کے دلہن بن کر آئی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں کے لوگوں کو یہ یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ اس کے شوہر جتندر جہیز کے مخالف ہیں اورسختی سے وہ اسکے خلاف ہیں۔
لوگوں نے دوبارہ دریافت کرنے کو کہا۔اس پر جتندر کا جواب تھا’’میری پرورش ایک مہذب خاندان میں ہوئی ہے،ہول سیل مارکیٹ میں نہیں‘‘۔
بڑی تعداد میں لڑکیاں بھی اس تحریک کا حصہ بن رہی ہیں اور وہ اپنے ہاتھوں میں اس کے خلاف بینرس اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔سدل پور سے پرنیما نامی لڑکی جو کہ دلی کے پولس محکمہ میں کانسٹبل کے عہدہ پر فائز ہے- کہتی ہیں کہ یہ نوخیز تعلیم یافتہ نسل ہے جو اس تحریک میں شامل ہورہے ہیں۔مہاپنچایت سے قبل اسکولوں کو جاکر نوجوان نسل تک یہ پیغام پہنچانا چاہئےnn(ٹائمس آف انڈیا۔پٹنہ ایڈیشن۔مورخہ؍7 مئی2010)